Showing posts with label سبق آموز کہانیاں. Show all posts
Showing posts with label سبق آموز کہانیاں. Show all posts

Monday, 18 May 2020

بچوں👩‍👦‍👦کی تربیت کے حوالے سے نہ🚫کرنے کے کاموں کی چھوٹی سی لسٹ

1) جھوٹ بولنا
بچوں کے ساتھ جھوٹ‌ بولنا ہمارے ہاں اتنا عام ہے کہ اسکو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اسکی اگر ساری مثالیں لکھنے بیٹھوں تو آرٹیکل اسی میں ختم ہو جائے گا لیکن بات سمجھانے کے لئے کچھ کا تذکرہ ضروری ہے۔
___★
2) بچوں کو سلانے کے لئے اصولاً ہمیں چاہئے کہ اسکے ساتھ بیٹھ/لیٹ کر اس پر معوذتین اور آیتہ الکرسی پڑھیں اور اسکو بتائیں کہ اب آپ آرام سے سو جائیں، فرشتے ساری رات آپکی حفاظت کریں گے، لیکن ہوتا کچھ یوں ہے کہ ڈرانے دھمکانے والے کام شروع ہو جاتے ہیں کہ مائی جھلی آ جائے گی، بٙلّا  آ جائے گا۔ ایک تو جھوٹ بولا، پھر بچے کو ڈرا کے سلایا، تیسرا اسکے دل میں ایک بے نام سا خوف ڈال دیا کہ اب جب وہ کسی بہت بوڑھی عورت کو یا بِلی کو دیکھتا ہے تو پریشان ہو کر چُھپنے لگ جاتا ہے۔
___★
3) بازار جانا ہو یا کسی بھی ایسی جگہ کہ بچہ ساتھ نہیں جا رہا، اسکو یہ کہہ کر جانا کہ "ٹیکا' لگوانے جا رہے ہیں، یا ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں۔ جھوٹ کے ساتھ دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ڈاکٹر کا سخت خوف بچے کے دل میں بیٹھ جاتا ہے۔
___★
4) اپنے پاس بلانے کے لئے مٹھی بند کر کے چھوٹے بچوں کو کہنا کہ یہ دیکھو میرے پاس ٹافی ہے۔ یا یہ کہ میرے پاس آؤ، پھر میں آپ کو فلاں چیز دلواؤں گا، جو کبھی دلوائی نہیں جاتی۔
___★
5) چھوٹے بچے جب کھانے سے انکاری ہوں، انکو انکی پسند کی چیز مثلاً چپس وغیرہ دکھا کر منہ کھلوانا لیکن چپس کی بجائے کھانا منہ میں ڈالنا۔ یعنی کچھ اور دکھا کر دھوکے سے کچھ اور کھلانا۔۔۔۔ پاکستان میں ہم کسی کے ہاں مہمان گئے۔ کوک دیکھ کر تین سالہ احمد نے بھی فرمائش کی۔ گلاس میں تھوڑی سی کوک اور باقی پانی ملا کر جب میں احمد کو پکڑانے لگی تو میزبان حیران لہجے میں پوچھنے لگیں کہ آپ نے اسکے سامنے پانی ملا دیا؟ ہم تو چھپ کر ملا کر دیتے ہیں۔
___★
6) بچوں کے ہاتھ سے چیز چھین کر جلدی سے کہیں چُھپا دینا اور کہنا کہ چڑیا لے گئی۔ بچہ اگر آپ کے سمجھانے کے باوجود چیز نہیں واپس کر رہا اور آپکو زبردستی اسکے ہاتھ سے لینی بھی پڑے تو بتا دیں کہ بیٹا، یہ ٹوٹ جائے گی/آپکو چوٹ لگ جائے گی اس لئے ماما آپکو یہ نہیں دے سکتیں۔ بات ختم_! جھوٹ کی ضرورت ہی کیا ہے۔
___★
7) جھوٹ بولنے سے بچے کو روکنے کے لئے ہم خود جھوٹ بول دیتے ہیں کہ زبان کالی ہو جائے گی۔ ہم چھوٹے سے بچے کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ سچ بولنا اللہ تعالی کو بہت پسند ہے۔ آپ سچ بول دیں، میں آپکو کچھ نہیں کہوں گا/گی۔ جھوٹ بولنے کے پیچھے بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ڈانٹ‌ پڑ جائے گی۔ تو پکا اصول بنا لیں کہ سچ بولنے پر بچے کو ڈانٹنا نہیں ہے۔ نرمی سے سمجھا ضرور دیں اور ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ آپ نے سچ بولا ہے اسلئے میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گی/گا۔
___★
8) اسکے علاوہ جھوٹی سزائیں اور جھوٹے انعامات رونا بند کر دو تو پورا ڈبہ چاکلیٹ کا دلواؤں گی، یا آپ کو وہ کار یا گڑیا دلواؤں گی جو اس دن مارکیٹ میں دیکھی تھی۔۔۔۔ اور سزائیں ایسی جو ممکن ہی نہ ہوں جیسے آئیندہ آپکو کبھی ساتھ نہیں لے کر جائیں گے، سارا دن کمرے میں بند رکھوں گی۔۔۔۔ آپ خود اپنے آپ کو دیکھئے کہ جس سزا یا انعام کا وعدہ آپ بچے سے کرتے ہیں، کیا وہ پورا بھی کیا جاتا ہے یا "جوشِ  خطابت" میں منہ سے نکل جاتا ہے؟
___★
9) غلط ناموں سے پکارنا
چھوٹے بچوں کو لاڈ سے ”گندہ بچہ“ کہنا ہمارے یہاں بہت عام ہے۔ ہم بچوں کو لاڈ سے کیوں نہ ”میرا پیارا بیٹا“ یا ”میرا اچھا بیٹا“ کہہ لیں۔ اس سے بھی بڑھ کر بچوں کے لئے شیطان کا لفظ استعمال کرنا۔۔۔۔ شیطان تو مردود ہے، اللہ کی رحمت سے دووووور۔۔۔۔ تو یہ نہ کہیں کہ بچہ شیطانیاں کر رہا ہے، بہت شیطان ہے۔ اسکی بجائے شرارتی کہہ لیجیے۔
جب بچے ذرا بڑے ہو جاتے ہیں تب بھی نام رکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور بچوں کی موجودگی میں  ہی ہر ایک کے سامنے ان ناموں اور خوبیوں/خامیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ والدین کی رائے اچھی ہو یا بری بچے جب بار بار سنتے ہیں تو کہیں نہ کہیں اسی رائے کے مطابق ڈھل جاتے ہیں۔ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ جو بات ہم اپنے ذہن میں ڈال لیتے ہیں، ہم اسی کے مطابق عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ ”بالکل احمق ہو“، ”کبھی کوئی کام صحیح کر ہی نہیں سکتے“، ”بہن کو دیکھو کتنی تیز ہو“،  ”تم اتنے سست ہو کہ کام کہنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں“۔ اردو پڑھنا میرے بیٹے کو بالکل نہیں پسند، بیٹی ہماری بالکل ”مائی منڈا“ ہے، ”چھوٹا بیٹا کسی سے ملنا بات کرنا پسند نہیں کرتا“۔۔۔۔ یہ سب باتیں جب بچوں کے سامنے دہرائی جاتی رہتی ہیں، تو پہلے انکی طبیعت میں جو صرف ایک رجحان تھا، اب ایک پکی عادت بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ کوشش کریں کہ بچے کی خوبیوں کو ہی ہائی لائیٹ کریں۔
___★
10) موازنہ کرنا
ہر بچہ منفرد ہے۔ اسکا اپنا مزاج، اپنے رجحانات، اپنی پسند ناپسند، کام سیکھنے/کرنے کی اپنی رفتار ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک بچہ سوشل جبکہ دوسرا خاموش طبع ہو، ایک صفائی پسند اور آرگنائزڈ جبکہ دوسرا من موجی سا ہو، ایک کو میتھس پسند ہو اور دوسرے کی جان جاتی ہو، ایک ڈرائنگ کا شوقین ہو جبکہ دوسرے کو سیدھی لائن لگانا بھی مشکل لگے۔ ایسے میں ہر بچے کو اسکی منفرد صلاحیتوں کے ساتھ قبول کریں۔ بار بار موازنہ کر کے بہن بھائی کے درمیان مقابلے اور حسد کی فضا نہ بنائیں۔۔🎐
★★___★____★★

Update Your Mind

Saturday, 16 May 2020

شیخ شیخ ہی ہوتا ہے

شیخ صاحب اپنے شہ زور ٹرک پر بیٹھ کر شہر کے چوک میں پہنچے اور لگے وہاں بیٹھے مزدوروں کو آوازیں دینے: کون کون جانا چاہتا ہے میرے ساتھ مزدوری پر، تین تین سو روپے دیہاڑی دونگا۔

پہلے پہل تو لوگ شیخ صاحب پر خوب ہنسے، پھر اسے سمجھانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ جناب والا: آجکل مزدور کی دیہاڑی آٹھ سو روپے سے کم نہیں ہے۔ کیوں آپ ظلم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، کوئی نہیں جائے گا آپ کے ساتھ۔ نہ بنوائیے اپنا مذاق۔

شیخ صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور سُنی ان سُنی کر کے مزدوروں کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے رہتے۔ شور کم ہوا اور بہت سارے مزدور تھک کر واپس جا بیٹھے تو تین ناتواں قسم کے بوڑھے مزدور، جن کے چہروں سے ہی تنگدستی اور مجبوری عیاں تھی، شیخ صاحب کی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے اور بولے: شیخ صاحب، چلئے ہم کرتے ہیں مزدوری۔ اس بے روزگاری سے بہتر ہے کہ آپ کے پاس مزدوری کر کے، چلو کچھ کما لیں اور گھر کیلئے دال روٹی بنا جائیں۔

شیخ صاحب نے ان تینوں کو ساتھ لیجا کر ایک یوٹیلیٹی سٹور پر روکا، تینوں کو ایک ایک تھیلا 10 کلو کے آٹے کا, تین تین کلو چینی اور دو دو کلو گھی لے کر دیا، تینوں کی ہتھیلی پر پانچ پانچ سو روپیہ بھی رکھا اور اجازت دیتے ہوئے کہا: بس آپ کا اتنا ہی کام تھا، آپ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔

دوسرے دن شیخ صاحب دوبارہ اپنا شہ زور ٹرک لیکر اسی جگہ پہنچے اور آواز دی: کون کون جانا چاہتا ہے میرے ساتھ مزدوری پر۔ تین تین سو روپے دیہاڑی دونگا سب کو۔ مزدور تو گویا تیار ہی بیٹھے تھے، سب سے پہلے چڑھنے کیلئے ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے سب ٹرک پر سوار ہو گئے۔

بس پھر شیخ صاحب نے سب سے مغرب تک کام کروایا۔ اور پورے تین تین سو روپے مزدوری دیکر چھٹی دی۔

بھولے لوگو شیخ شیخ ہی ہوتا ہے۔

ماں سردی میں سسک سسک کر جان دے گئی

کسی گاؤں میں ایک عورت اپنے پانچ سال کے چھوٹے بچے کے ساتھ رہتی تھی۔ کچھ ماہ قبل اُس کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا۔ لہٰذا یہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت کیلئے خود ہی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی، اُنکے برتن مانجھتی، کپڑے دھوتی اور اُنکے بڑے بڑے گھروں کو یہ اکیلی عورت تن تنہا صاف کرتی۔ صرف اِس لیے کہ اُسکے بیٹے کی کسی چیز میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
وقت گزرتا گیا، اور کئی سال بیت گئے۔ اب اِس کا بیٹا جوان ہو گیا تھا اور کسی اچھی کمپنی میں نوکری کر رہا تھا۔ اُسکی شادی ہو گئی تھی، اور ایک پیارا سا بیٹا بھی تھا۔ اور یہ عورت اب بڑھاپے کی دہلیز پر دستک دے رہی تھی۔
بیٹا شادی کے بعد اور نوکری ملنے کے بعد ماں کا احترام کرنا تو دور کی بات اُسکے ساتھ ڈھنگ سے بات بھی نہ کرتا تھا۔ اِس بوڑھی عورت کی زندگی میں صرف اتنا فرق آیا تھا کہ پہلے یہ غیروں کے برتن اور کپڑے دھوتی تھی، اب اپنے بہو بیٹے کے جوٹھے برتن دھو رہی تھی، پہلے یہ دوسروں کے گھروں کی صفائی کرتی تھی، اب یہ بہو کے ہوتے ہوئے بھی اپنے گھر کی صفائی کرنے پر مجبور تھی۔
خیر جو بھی تھا، لیکن تھی تو یہ ایک ماں، اپنے بیٹے کی خوشی کی خاطر وہ ہر دُکھ جھیلنے کو تیار تھی۔ بیٹے کے پاس دولت کی کمی نہ تھی، اللہ کی دی ہوئی ہر چیز اب اُسکے پاس تھی۔ لیکن ماں کو اُس نے گھر کے ایک الگ کمرے میں چھوڑ رکھا تھا جہاں موسم کی شدت کو روکنے کیلئے کوئی بندوبست نہ تھا۔ اور کئی کئی دِنوں کے بعد جب کبھی وہ اُس کمرے میں جاتا تو صرف ماں کو گزرے وقت کی محرومیاں یاد کروا کر طعنے دینے اور لڑنے جھگڑنے کیلئے۔
ایک دِن سردیوں کی یخ بستہ شام میں اُسکی ماں ایک پھٹے پُرانے کمبل میں سُکڑ کر بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ، "آج اُسکا بیٹا کام سے واپس آئے گا تو وہ اسے نئے کمبل کا کہے گی، کیونکہ اِس کمبل میں اُسے بہت سردی لگ رہی تھی، اور اب اُسکی کمزور ہڈیوں میں اِس سردی کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اور اُسے سو فیصد یقین تھا کہ اُسکا بیٹا بڑے پیار سے اُسکی یہ ضرورت پوری کرے گا۔
رات کو بیٹا گھر آیا تو ماں نے بڑے پیار سے اُسے نئے کمبل کا کہا تو، بیٹا غصے سے بولا، "ماں! ابھی ابھی میں کام سے آیا ہوں، اور آتے ہی تم اپنا مطالبہ لے کر آ گئی ہو۔ اور تمہیں پتہ ہے کتنی مہنگائی ہو گئی ہے۔ ابھی تمہارے پوتے کو اسکول داخل کروانا ہے، اُسکا یونیفارم اور کتابیں لینی ہیں، گاڑی کی قسط ادا کرنی ہے۔ میں نے ابھی اپنے لیے جیکٹ خریدنی ہے، تمہاری بہو کیلئے شال لانی ہے۔
تم تو سارا دِن گھر میں ہی رہتی ہو، تمہیں کمبل کی اتنی کیا اشد ضرورت آن پڑی ہے؟ ہم لوگوں نے تو باہر گھومنے جانا ہوتا ہے، تم کسی طرح یہ سردیاں گزار لو، اگلے سال سردیوں سے پہلے پہلے تمہارے کمبل کا کچھ بندوبست کر دونگا۔۔۔!"
بوڑھی ماں خون کے آنسو پی کر چُپ چاپ اپنے بوسیدہ حال کمرے میں واپس آ گئی اور پھٹے ہوئے کمبل کو اوڑھ کر ٹوٹی ہوئی چارپارئی کے کونے میں سُکڑ کر لیٹ گئی۔
صبح جب بیٹے کی آنکھ کھلی تو پتہ چلا، پچھلی رات ماں اللہ کو پیاری ہو گئی۔ بیٹے نے اپنے تمام رشتے داروں کو ماں کے جنازے پر بلایا۔ اور ماں کے کفن دفن اور مہمانوں کی خاطر مدارت پر لاکھوں روپے خرچ کیے۔ جو بھی جنازے میں شریک ہوا، یہی کہتا کہ، "کاش! اللہ ہر کسی کو ایسا بیٹا دے، مرنے کے بعد بھی ماں سے کتنی محبت ہے۔!"
لیکن انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ، دنیا والوں کو دِکھانے کی خاطر جو بیٹا اپنی مری ہوئی ماں کے جنازے پر لاکھوں روپے خرچ کر رہا ہے، پچھلی رات چند سو روپے کے کمبل کے نہ ہونے کی وجہ سے وہی ماں سردی میں سسک سسک کر جان دے گئی۔
پری....